The Establishment of the Islamic Economic System Is Mandatory …
Sunday, 17th Rajab 1440 AH | 24/03/2019 CE | No: 1440/42 |
Press Release
The Establishment of the Islamic Economic System Is Mandatory
for Economic Progress and Revival, Not Incentives for Foreign Investors
The Malaysian Prime Minister, Dr. Mahathir Mohamad, during his visit to Pakistan said that he had offered tax holidays to foreign investors for two decades, whilst sharing the “secret” of Malaysia’s economic success, during a business conference in Islamabad, held on Friday 22 March 2019. Economic activity may be boosted for a short while by giving incentives to foreign investors, however, ultimately the control of the economy shifts to foreign hands, which is lethal for political and economic sovereignty. Those countries which relied on foreign investors for economic progress witnessed its dangerous effects shortly thereafter. In the nineties of the previous century, Malaysia was amongst the “Asian Tigers” which were progressing economically. Then in 1997, a powerful economic crisis erupted in these countries. The prime reason for the crisis was that foreign investors withdrew their investments simultaneously, which turned these “Asian Tigers” into “Asian Kittens” in a matter of a few weeks. Even today, the total foreign debt of Malaysia is 46 percent of its total GDP, whilst Pakistan’s total foreign debt is 30 percent of its GDP. Declaring that foreign investors are the key to economic progress is colonialist thinking, which enables colonialist countries to control the economies of weaker nations, so they can never challenge them in the field of economy, despite their immense potential. This is clearly colonialist thinking because it is amongst the ten points of the “Washington Consensus.” The International Monitory Fund (IMF) pressurizes countries who seek loans from it to give concessions to foreign investors. However, why are the incentives and concessions that are offered so generously to foreign investors, not given to local investors? Foreign investors are given every type of concession, including tax holidays, whilst local investors have their backs broken with tax burdens to fill the state treasury.
For economic revival, the establishment of the Islamic economic system is mandatory, not extending incentives to foreign investors. In origin, Islam does not place any tax on industrialists and investors, asides from Zakah. Local investors and industrialists can import raw material as inputs for local production, without paying any customs duty as in Islam’s economic system, in origin, there is no customs duty. Also local industrialists and investors receive electricity and gas at affordable rates, without any tax charges. This is because under Islam’s economic system, energy is a public property, which cannot be owned by private firms for profiteering, nor can the state impose taxes upon it. Instead, the state only supervises it for the benefit of the public. Whilst Muslims implemented Islam, they were the global economic power for centuries. The Indian Subcontinent before the British occupation contributed to almost 25 percent of global economic output and the only reason was the implementation of the Islamic economic system. Today the economic misery of Pakistan and the whole of the Muslim World is only because of the absence of the Islamic economic system, as implemented by the Khilafah. Allah (swt) warned us and said,
وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا
“But whosoever turns away from this Admonition from Me (Quran) shall have a miserable life.” [Surah Taha 20:124).
So we must re-establish the Khilafah (Caliphate) on the Method of the Prophethood in Pakistan to secure economic revival.
Media Office of Hizb ut Tahrir in Pakistan
پریس ریلیز
ملکی معیشت کی ترقی کے لیے بیرونی سرمایہ کاروں کو ترغیبات دینے کی نہیں
بلکہ اسلام کے معاشی نظام کے نفاذ ضرورت ہے
پاکستان کے دورے پرآئے ملیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے 22مارچ کو اسلام آباد میں ایک بزنس کانفرنس سے خطاب میں ملیشیا کی معاشی ترقی کا رازیہ بتایا کہ انہوں نے دو دہائیوں تک بیرونی سرمایہ کاروں کو ٹیکس میں مراعات فراہم کیں تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو مراعات فراہم کر کے کچھ عرصے کے لیے معیشت میں تیزی تو لائی جاسکتی ہے مگر معیشت کا کنٹرول بیرونی ہاتھوں میں چلاجاتا ہے جو ملک کی معاشی اور سیاسی خودمختاری کے لیے انتہائی مہلک ہے۔ جن ممالک نے ملکی معیشت کو ترقی دینے کے لیے بیرونی سرمایہ کاروں پر انحصار کیا تو انہوں نے اس کے مہلک اثرات کا بہت جلد مشاہدہ بھی کیا۔ پچھلی صدی کی نوے کی دہائی میں ملیشیا کو ایشیا کی تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں ،ایشین ٹائیگرز، میں شمار کیا جاتا تھا، لیکن پھر 1997 میں ایک زبردست معاشی بحران نے ان ممالک کی معیشتوں کو جکڑ لیا جس کی سب سے بڑی وجہ بیرونی سرمایہ کاروں کا ان ممالک سے تیزی سے پیسہ نکالنا تھا جس کے نتیجے میں چند ہفتوں میں ملیشیا سمیت یہ ایشین ٹائیگرز، ایشین کیٹس میں تبدیل ہوگئے۔ آج بھی ملیشیا کی معیشت کا حال یہ ہے کہ اس کے بیرونی قرض اس کی کُل ملکی پیداوار کا46 فیصد ہے جبکہ پاکستان کا بیرونی قرض اس کی کُل ملکی پیداوار کا 30 فیصد ہے۔
درحقیقت معیشت کی ترقی کی کنجی بیرونی سرمایہ کاروں کو قرار دینا ایک استعماری سوچ ہے جس کا مقصد استعماری ممالک کواس قابل بنانا ہے کہ وہ معاشی طور پر کمزور ممالک کی معیشت کو اپنے کنٹرول میں کرلیں اور چھوٹے ممالک معاشی میدان میں ان کی بالادستی کو کبھی چیلنج نہ کرسکیں ۔ اس پالیسی کاستعماری ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ یہ واشنگٹن کانسنس (Washington Consensus) کے دس نکات میں سے ایک نکتہ ہے اور آئی ایم ایف قرض لینے والے ہر ملک پر اس پالیسی کو نافذ کرنے کے لیے دباؤ ڈالتی ہے۔ آخر وہ تمام مراعات ملکی سرمایہ کاروں کو کیوں نہیں دیں جاتی جو بیرونی سرمایہ کاروں کودیں جاتی ہیں؟ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو تو ہر قسم کی مراعات دیں جاتی ہیں جن میں ٹیکس کی چھوٹ بھی شامل ہے اور پھر ملکی خزانے کو بھرنے کی تمام ذمہ داری ملکی سرمایہ کاروں پر ڈال دی جاتی ہے، اور اس طرح ملکی سرمایہ کار کی کمر توڑ دی جاتی ہے۔
ملکی معاشی ترقی کے لیے بیرونی سرمایہ کاروں کے سرمائے کی نہیں بلکہ اسلام کے معاشی نظام کے نفاذ کی ضرورت ہے۔ اسلام کا معاشی نظام صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں پر بنیادی طور پر زکوۃ کے سوا کوئی ٹیکس عائد نہیں کرتا۔ ملکی سرمایہ کار پیداوار کے لیے درکار خام مال بغیر کسی کسٹم ڈیوٹی کے درآمد کرسکتا ہے کیونکہ اسلام کے معاشی نظام میں بنیادی طور کوئی کسٹم ڈیوٹی نہیں ہوتی۔ اسی طرح ملکی سرمایہ کار کو بجلی،گیس انتہائی مناسب قیمت پر دستیاب ہوتی ہے کیونکہ اسلام کے معاشی نظام کے تحت بجلی و گیس نجی ملکیت نہیں بلکہ عوامی ملکیت ہوتے ہیں اور ریاست عوام کے وکیل کے طور پر بغیر کوئی ٹیکس لگائے بجلی و گیس مہیا کرتی ہے۔ جب تک مسلمانوں نے خلافت کے زیر سایہ اسلام کا معاشی نظام نافذ کیا تو وہ دنیا کی معاشی طاقت تھے۔ صرف برصغیر پاک و ہند کی معیشت برطانوی قبضے سے قبل دنیا کی معیشت کا تقریباً 25 فیصد تھی اور اس کی واحد وجہ اسلام کے معاشی نظام کا نفاذ تھا۔ اور آج پاکستان اور مسلم ممالک کی معاشی تنزلی کی واحد وجہ یہی ہے کہ اسلام کا معاشی نظام نافذ نہیں کیا جارہا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا
“اور جو میری نصیحت (قرآن) سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی”(طہ 20:124) ۔
لہٰذا ہمیں پاکستان میں نبوت کے طریقے پر خلافت قائم کرنی چاہیے اور معاشی ترقی کو یقینی بنائیں۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس