Thursday, 30th Rabi al-Tahni AH | 05/12/2019 CE | No: 1441/26 |
Press Release
When Will the IMF Dictated Practice of Handing over
Pakistan’s Profitable and Valuable Organizations to a Capitalist Elite End?
The Bajwa-Imran regime is now busy handing over Pakistan’s most prized assets to a select capitalist elite under the banner of privatization, as if it is an open loot sale. On 28 November 2019 the Economic Coordination Committee (ECC) of the cabinet discussed the accelerated privatization of two Liquid Natural Gas based 2,450MW power plants of the National Power Parks Management Company. The privatization of these two power plants will yield 300 billion Rupees, but the government will subsidize the LNG purchase cost to the order of 471 billion rupees until 2025. On 30 November 2019, news reports revealed that the government has decided to sell 7 and 10 percent shares of OGDCL and PPL, respectively to yield 88 billion Rupees. Significantly, last year, OGDCL contributed Rs 160 billion to the national exchequer. Selling the golden-egg laying geese, the regime reveals its actual loyalty. The economic hit man of the global colonialist, Dr. Hafeez Sheikh takes his salary from public funds, but serves the IMF.
Colonialist tools like the IMF will never allow Pakistan to become a self-reliant country. Colonialist policies ensure undermining of economic sovereignty and dependence on the colonialists. Consider that in the privatization of the Karachi Electric Supply Company (KESC), it was sold for a mere 16 billion Rupees. However, its declared profits for seven years was almost 100 billion Rupees, lining the pockets of a select capitalist elite, whilst depriving the public. Similarly, the privatization of Pakistan Telecommunications Company Limited (PTCL) was like selling the refrigerator so as to buy ice each day, plunging the country into a huge net loss. If the government keeps privatizing those assets that are earning billions of Rupees annually for the public exchequer, the government will resort to either increasing taxation or taking on even more interest based loans, which both herald even more economic misery.
Had the Bajwa-Imran regime been sincere with Pakistan, it would have rejected privatization of profitable organizations. Furthermore, it would have vigorously revived state organizations like Pakistan Steel Mills, PIA and Pakistan Railways, which are running into losses currently. This would have generated huge revenues for the state treasury, relieving the people of huge tax burdens, whilst truly strengthening the economy. Moreover, if the Bajwa-Imran regime had been sincere to its promise of making Pakistan a state like Madinah, it would have rejected the privatization of assets related assets related to oil, gas and electricity, because Islam has declared them as public property, whose privatization is forbidden. The Messenger of Allah (saaw) said,
الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ: فِي الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ
“The Muslims are partners in three things: water, pasture and fire (energy)” (Ibn Majah).
The Ahadeeth of the Messenger of Allah (saaw) will only be followed in the state of the Khilafah (Caliphate) on the Method of Prophethood. The Khilafah is the state that implements the commands of Quran and Sunnah, unlike democracy and dictatorship, which implement man-made laws in order to fulfill the desires of a select elite.
Media Office of Hizb ut Tahrir in Wilayah Pakistan
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پریس ریلیز
آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر پاکستان کے قیمتی اور منافع بخش ادارے سرمایہ داروں کی جھولی میں ڈالنے کا سلسلہ کب رکے گا؟
مال مفت دل بے رحم کی مانند باجوہ-عمران حکومت نےپاکستان کی منافع بخش کمپنیوں کو نجکاری کے نام پر چند سرمایہ کاروں کی جھولی میں ڈالنے کا لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ 28 نومبر 2019 کو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے نیشنل پاور پارکس مینجمنٹ کمپنی کے تحت آنے والے 2450 میگا واٹ کےحویلی بہادر شاہ اور بلوکی پاورپلانٹس کی نجکاری کو تیز کرنے کے معاملے پر بات کی۔مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ ان پاور پلانٹس کی فروخت سے 300 ارب روپے حاصل ہوں گے لیکن نئے نجی مالکان کو ایل این جی پر 2025 تک زرتلافی (subsidy) کی مد میں 471 ارب روپے دینے پڑیں گے۔ 30 نومبر 2019 کو یہ خبر بھی سامنے آئی کہ حکومت آئل اینڈ گیس ڈیویلپمنٹ کمپنی (OGDCL) اور پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کے بلترتیب 7 اور 10 فیصد شیئرز فروخت کر کے 88 ارب روپے جمع کرنا چاہتی ہے۔ صرف پچھلے سال حکومت کو OGDCL سے160ارب کا فائدہ حاصل ہوا۔اس کے باوجود اس انڈے دینے والی مرغیوں کو حکومت سرمایہ داروں کو بیچنا چاہتی ہے۔یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عالمی استعمار کے اکنامک ہٹ مین حفیظ شیخ تنخواہ تو عوام کے پیسوں سے لیتے ہیں لیکن وفاداری آئی ایم ایف سے نباہ رہے ہیں۔
استعماری ممالک اور ان کے ادارے جیسا کہ آئی ایم ایف کسی صورت یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو۔ ان کی پالیسیوں پر چلنا ریاست کی معاشی خودکفالت اور خودمختاری کا سودا اور ملک کو ہمیشہ کیلئے ان استعماری اداروں کے رحم کرم پر چھوڑنے کے مترادف ہے۔ اس کی سادہ سی مثال کراچی الیکٹرک ہے جو 16 ارب میں سرمایہ داروں کو فروخت کی گئی، جس نے صرف پچھلے سات سالوں میں تقریباً 100 ارب کاڈکلئیرڈ خالص منافع کمایا، یوں عوام کی جیبوں کو خالی کر کے سرمایہ داروں کی جیبوں کو بھرا گیا۔ اگر حکومت ایسے اداروں کی نجکاری کردے گی جو حکومت کو سالانہ اربوں روپے کما کر دیتے ہیں تو پھر حکومت ضروریات کو پورا کرنے کے لیے عوام پر مزید ٹیکس عائد کرے گی یا مزید قرضے لے گی اور دونوں صورتوں میں نقصان پاکستان اور عوام کا ہی ہوگا۔ پی ٹی سی ایل کی نجکاری بھی اسی طرح گھاٹے کا سودا ثابت ہوئی۔ ان اداروں کو بیچنے کی مثال گھر کا فریج بیچنے جیسی ہے جس کے بعد ہر دن سو روپے کی برف خریدنے کے باعث چند ہی مہینے میں اس سے زیادہ نقصان ہو جاتا ہے ۔ یہ آئی ایم ایف کے وفادار پاکستان کی معاشی سلامتی کیلئے شدید رسک بن چکے ہیں۔ کیونکہ یہ گھر کے قیمتی اثاثوں کو بیچنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اگر باجوہ-عمران حکومت پاکستان سے مخلص ہوتی تو وہ ان منافع بخشش اداروں کی نجکاری سے انکار کرتی بلکہ جو ادارے سرکاری شعبے میں نقصان میں چل رہے ہیں جیسا کہ پاکستان اسٹیل مل، پی آئی اے، پاکستان ریلویز انہیں بھی جنگی بنیادوں پر کام کر کے منافع بخش بناتی جس سے حکومت کے محصولات میں زبردست اضافہ ہوتا ، عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ کم ہوتا اور ملکی معیشت حقیقی معنوں میں مضبوط ہوتی۔ اور اگر باجوہ-عمران حکومت پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے اپنے وعدے سے سچی ہوتی تو وہ ان اداروں کی نجکاری سے صاف انکار کرتی کیونکہ اسلام نے تیل و گیس کو عوامی ملکیت قرار دیا ہے جن کی نجکاری حرام ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ: فِي الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ
”مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں: پانی چراہ گاہیں اور آگ(توانائی)“(ابن ماجہ)۔
رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد پر عمل صرف نبوت کے طریقے پرقائم خلافت میں ہوگا کیونکہ اس ریاست کی بنیاد قرآن و سنت کے احکامات کے نفاذ پر ہوتی ہے جبکہ جمہوریت و آمریت میں ریاست کی بنیاد انسانوں کی خواہشات کو قوانین کی شکل دے کر نافذ کرنے پر ہوتی ہے۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس