Dictatorship or Democracy, Budget is Always Prepared According to IMF Dictates
Saturday, 19th Shaban 1436 AH 06/06/2015 CE No:PN15045
Press Release
Budget 2015-16
Dictatorship or Democracy, Budget is Always Prepared According to IMF Dictates
On 5th June 2015, the Finance minister of the Raheel-Nawaz regime presented budget for the 2015-16 financial year. As for many decades previously, this year’s budget neglects the people by fulfilling the requirements of the colonialists, headed by America, through blind compliance with IMF dictates. The Finance Minister, in accordance with his Letter of Intent to the IMF of 11th May 2015, further burdened the people and introduced almost 250 billion rupees worth of new taxes, withdrawing tax subsidies and raising taxation on various items. This is in order to secure a 506 million dollars installment of a 6.8 billion dollar IMF loan. However, even after this huge rise in taxation, this budget again has a large budget deficit, of some 328 billion rupees. This shortfall will be financed by taking even more foreign and domestic loans, which further increases the huge total debt on Pakistan. In this budget, 1596 billion rupees are already allocated for debt servicing, which is almost 37 percent of the total revenue of 4314 billion rupees. So no matter how much tax is raised, it will never be sufficient to pay previous loans and their interest. More loans will be arranged and more taxes will be imposed on the people, to payback these loans. Therefore, this vicious cycle of debt will continue, burying the people in even more poverty and hardship.
In reality, the capitalist system, whether enforced by democracy or dictatorship, will never take care of the needs of the common people. It will only produce economic policies to increase the wealth of the colonialists, their agent rulers and their cronies continuously. Hence, assets that could generate large revenues for the society are handed over to private entities, local and foreign, in the name of privatization. Therefore on IMF dictates, valuable assets of Pakistan are sold to large capitalist interests. By doing so, the regime is selling a golden goose, which could have generated great wealth for looking after the people’s affairs.
The people of Pakistan will never be able to get out of this vicious cycle, unless the Islamic economic system is implemented by the Khilafah. Islam declared large natural resources, such as oil, gas and minerals, as public property for looking after the affairs of the people. RasulAllah (saw) said,
الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ
“The Muslims are partners in three things, waters, feeding pastures and fire.” (Ahmad).
Also if the revenue from public property, Zakat on trade and life stock, Kharaaj on agricultural land and Usher agricultural produce are not enough for expenditure on that which Islam has stipulated, even then Islam forbids the ruler to impose taxes indiscriminately. Unlike the IMF policy, in Islam revenue generation takes into consideration the ability of each and every individual to fulfill their basic needs of food, clothing and shelter. Therefore, when the Khilafah does tax, it does not penalize the poor and under-privileged.
Hizb ut-Tahrir urges the Muslims of Pakistan to abandon any hope in Democracy or dictatorship because it is the guarantor of our destruction and misery, regardless of who comes to rule within it. So join hands with Hizb ut-Tahrir and work to abolish democracy and secure the return of the Khilafah.
Shahzad Shaikh
Deputy to the Spokesman of Hizb ut-Tahrir in the Wilayah of Pakistan
پریس ریلیز
بجٹ 16-2015
آمریت ہو یا جمہوریت بجٹ ہمیشہ آئی۔ایم۔ایف کی ہدایات کے مطابق ہی بنتا ہے
5 جون 2015 کو راحیل-نواز حکومت کے وزیر خزانہ نے 16-2015 کا بجٹ پیش کیا۔ پچھلی کئی دہائیوں کے بجٹ کی طرح اس بار بھی پاکستان کے عوام کی ضروریات کو مد نظر نہیں رکھا گیا بلکہ آئی۔ایم۔ایف کی ہدایت کے مطابق عالمی استعماری سرمایہ داریت، جس کا سربراہ امریکہ ہے، کی ضروریات کو ہی سامنے رکھا گیا۔ وزیر خزانہ نے 11 مئی 2015 کو آئی۔ایم۔ایف سے 6.8 ارب ڈالر کے قرضے میں سے 506 ملین ڈالر کی قسط کے حصول کے لئے کرائی گئی یقین دہانی کے تحت اس بجٹ میں عوام پر تقریباً 250 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کا بوجھ مختلف اشیاء پر ٹیکس مراعات کے خاتمے یا ٹیکس کی شرح میں اضافے کا اعلان کر کے ڈال دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمیشہ کی طرح یہ بجٹ بھی خسارے (1328 ارب روپے) کا ہی بجٹ ہے جس کو اندرونی اور بیرونی ذرائع سے قرضے لے کر پورا کیا جائے گا اور پاکستان کی کُل قرضے میں مزید اضافے کا باعث ہوگا۔ اس بجٹ میں بھی پاکستان کے کُل قرضوں پر سود اور اصل زر کی ادائیگی پر 1596 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے جو کُل محاصل (4314ارب روپے) کا تقریباً 37 فیصد بنتا ہے۔ لہٰذا چاہےجس قدر بھی ٹیکس میں اضافہ کرلیا جائے وہ ہمیشہ پچھلے قرضوں اور ان پر عائد سود کی ادائیگی کے لئے ناکافی ہی رہتا ہے اور ان کی ادائیگی کے لئے مزید قرض لیا جاتا ہے اور پھر اس قرض کے ادائیگی کے لئے عوام پر مزید ٹیکس لگایا جاتا ہے، اس طرح یہ شیطانی چکر کبھی بھی ختم نہیں ہوتا اور عوام غربت کی دلدل میں دھنستے ہی چلے جاتے ہیں۔
درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام چاہے وہ جمہوری شکل میں ہو یا آمریت کی شکل میں، کبھی بھی عوامی ضروریات کو سامنے نہیں رکھتا بلکہ وہ استعماری طاقتوں، ان کے ایجنٹ حکمرانوں اور ان سے وابستہ افراد کے مفادات کے مطابق معاشی پالیسیاں تشکیل دیتا ہے جس کا مقصد ان کی دولت میں مستقل اضافہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ادارے جن کے ذریعے ریاست بے پناہ وسائل جمع کرسکتی ہے انہیں نجکاری کے نام پر مقامی اور بیرونی سرمایہ کاروں کو بیچ دیا جاتا ہے۔ لہٰذا آئی۔ایم۔ایف کی ہدایت کے مطابق پاکستان کے بیش قیمت اداروں کی نجکاری کا عمل جاری ہے اور اس طرح یہ حکومت سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کو بیچ رہی ہے جس سے مسلسل حاصل ہونے والے خزانے کو ریاست عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرسکتی ہے۔
پاکستان کے عوام کبھی اس شیطانی چنگل سے نہیں نکل سکتے جب تک خلافت کی شکل میں اسلام کے معاشی نظام کو نافذ نہ کرلیا جائے۔ اسلام کا معاشی نظام ہی وہ واحد نظام ہے جو معاشی سرگرمیوں کو تیز کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دولت کی منصفانہ تقسیم کو بھی یقینی بناتا ہے۔ اسلام بڑے بڑے قدرتی وسائل جیسے تیل، گیس اور معدنی وسائل کو عوامی ملکیت قرار دیتا ہے تاکہ اس سے حاصل ہونے والی دولت کو لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ،
الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ
“مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں، پانی، چراگاہیں اور آگ (یعنی توانائی)”(مسند احمد)۔
عوامی ملکیت کے علاوہ اسلام نے، تجارت اور مویشیوں پر زکوۃ، زرعی زمین پر خراج اور چار زرعی اجناس پر عشر مقرر کیا ہے اور اگر ان تمام سے حاصل ہونے محاصل کے بعد بھی ریاست اور عوام کی ضروریات کے لئے وسائل ناکافی ہوں تب بھی اسلام حکمران کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ جس پر جتنا چاہے ٹیکس لاگو کر دے بلکہ آئی۔ایم۔ایف کی پالیسی کے برعکس اسلام یہ کہتا ہے کہ محاصل کی وصولی سے قبل یہ دیکھا جائے کہ آیا ایک شخص کی خوراک، لباس اور رہائش جیسی بنیادی ضروریات پوری ہو رہی ہیں یا نہیں۔ لہٰذاجب خلافت ٹیکس لگاتی ہے تو وہ غریبوں اور ضرورت مندوں پر لاگو نہیں کرتی۔
حزب التحریر پاکستان کے عوام کو یہ بتا دینا چاہتی ہے کہ جمہوریت اور آمریت سے بندھی کسی بھی امید کو خیرباد کہہ دیں کیونکہ یہ جمہوری نظام بذاتِ خود ہماری بدحالی کی وجہ ہے اور جو بھی اس کرپٹ نظام میں داخل ہوگا، یہی کچھ کرے گی۔ آئیں اور حزب التحریر کے ساتھ مل کر ہم جمہوریت کے خاتمے اور خلافت کے قیام کے لیے کوشش کریں۔
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان