Close relations with America and Kafir Harbi states have always harmed Pakistan
بسم اللہ الرحمن الرحیم
Close relations with America and KafirHarbi states have always harmed Pakistan
Written by :ShahzadShaikh
(Deputy spokesman of Hizb ut-Tahrir in the Wilayah of Pakistan)
Dated: 17 October 2013
Event: On Monday, 14th of October 2013, the US Special Envoy for Pakistan and Afghanistan, James F. Dobbins, visited Pakistan. The US Embassy in Islamabad said in a press release that “Dobbins discussed US-Pakistani relations, regional security, and Afghanistan with Interior Minister Chaudhry Nisar, Advisor to the Prime Minister on National Security and Foreign Affairs Sartaj Aziz, and Chief of Army Staff General Ashfaq Parvez Kayani”.
Comment: The American special envoy visited Pakistan at a time when the Prime Minister of Pakistan Nawaz Sharif is due to meet the US President, Barack Obama, in Washington on the 23rd of this month. Every ruler who comes to power in Pakistan wants to travel to Washington or London as his first preferred destination, so he can demonstrate to his people that he enjoys good relations with the superpower and its allies and then say that his government is strong and stable. But these close relations never served even these rulers, as whenever America felt that the current ruler can no longer secure or pursue her interests, she simply withdraws her support from him. Moreover, close relations with America and western Kafir Harbi states always resulted in great harm for Pakistan.
Historically, whenever Pakistan trusted or followed the advice of America or western Kafir Harbi states, she always suffered harm. In 1948 when Pakistan army and Mujahideen where defeating the Indian army on various fronts in occupied Kashmir and were advancing towards its capital Srinagar, India went to the United Nations and asked them to intervene in this matter. Pakistan on the pressure and guarantees of America and western Kafir Harbi states accepted the ceasefire. But since then sixty five years have passed, yet Pakistan and the Kashmiri Muslims have yet to see the implementation of the United Nations Security Council resolution. Similarly, in 1962 when Indo-China war started Pakistan had a golden opportunity to liberate Kashmir but America and western Kafir Harbi nations intervened and on their advice Pakistan did not pursue its cause. Eventually it lost that opportunity. And in 1971 when India attacked East Pakistan with the open backing of Soviet Union, the cold war foe of America, America did not come to defend its friend Pakistan even though it had a defense pact with her. Pakistan kept on waiting for American naval fleet to arrive but it did not come. And eventually a humiliating surrender in Muslim history took place and India secured the capture of almost one hundred thousand of the Muslim army and declared them as prisoners-of-war. Now for the last twelve years, we are fighting America’s so called war on terror as its front line state and a non NATO ally and have lost more than fifty thousand civilians and personnel of the armed forces. And our economy has suffered a loss of more than seventy billion dollars.
Therefore it is necessary that Pakistan must cut all ties and relationships with America and Kafir western Harbi nations. After this we will be able to take independent decisions in our matters, whether it is of economy or foreign relations. But this can only be materialized after the return of the Khilafah to these lands as the current capitalist system and the traitors in political and military leadership will never take such brave decisions. It will only be the Khilafah state that will eject all American military, private security agencies and diplomats. It will close all American bases and sever the Nato supply line. And then the army of Khilafah along with the sincere Mujahideen will end all American and western presence from the region and secure it from their filth.
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امریکہ اور کافر حربی ریاستوں سے قریبی تعلقات، پاکستان کے لیے ہمیشہ نقصان کا باعث بنے ہیں
تحریر: شہزاد شیخ
(ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان)
تاریخ: 17اکتوبر2013
خبر: 14اکتوبر 2013 بروز پیر امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے پاکستان و افغانستان جیمز ڈوبنز نے پاکستان کا دورہ کیا۔ پاکستان میں امریکی سفارت خانے سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس کے مطابق:”ڈوبنز نے پاک امریکہ تعلقات، خطے کے سلامتی امور اور افغانستان کے معاملات پر وزیر داخلہ چوہدری نثار ، وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز اور چیف آف آرمی سٹاف اشفاق پرویز کیانی سے بات چیت کی”۔
تبصرہ: امریکی نمائندہ خصوصی جمیز ڈوبنز نے یہ دورہ اس وقت کیا ہے جب وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کی 23 اکتوبر 2013 کو واشنگٹن میں امریکی صدر اوبامہ سے ملاقات ہونے والی ہے۔ پاکستان میں بر سراقتدار آنے والا ہر حکمران اپنا سب سے پہلا غیر ملکی دورہ واشنگٹن یا لندن کا کرنا چاہتا ہے تا کہ وہ پاکستان کے عوام کو یہ دِکھا سکے کہ وقت کی سپر پاور اور اس کےاتحادی ، اس کی حمائت کررہے ہیں اور اس کا قتدار مضبوط و مستحکم ہے۔ لیکن جہاں ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے بظاہر دوستانہ تعلقات استوار رکھنا کسی بھی پاکستانی حکمران کے کام نہیں آیا، کیونکہ جب بھی امریکہ نے یہ دیکھا کہ یہ حکمران مزید اس کے مفادات کے حصول اور ان کے تحفظ کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں رہا تو امریکہ نے ہمیشہ ان کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیا، تو دوسری جانب امریکہ اور مغربی کافر حربی ریاستوں سے تعلقات کا پاکستان کو بھی فائدے سے زیادہ ہمیشہ نقصان ہی ہوا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب جب پاکستان نے امریکہ و مغربی کافر حربی ریاستوں کی بات مانی یا ان پر بھروسہ کیا تو پاکستان کو ہمیشہ نقصان ہی اٹھانا پڑا۔ 1948 میں جب افواج پاکستان اور مسلم مجاہدین، کشمیر کے محاظ پر بھارتی فوج کو شکست دیتے ہوئے سرینگر کی جانب پیشقدمی کررہے تھے تو بھارت بھاگا بھاگا اقوام متحدہ گیا اور پاکستان نے امریکہ اور کافر مغربی حربی ریاستوں کے دباؤ اور یقین دہانیوں پر یقین کرتے ہوئے جنگ بندی قبول کر لی ۔ لیکن اس کے بعد سے اب تک 65 سال گزر چکے ہیں اور پاکستان اور کشمیر کے مسلمان اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کا انتظار ہی کررہے ہیں۔ اسی طرح جب 1962 میں چین اور بھارت کی جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کے پاس کشمیر کو آزاد کروانے کا ایک سنہری موقع تھا لیکن امریکہ اور کافر مغربی حربی ریاستوں نے مداخلت کی اورانکےمشورے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا اور کشمیر کی آزادی کا موقع گنوا دیا۔ پھر 1971 میں جب بھارت نے اس وقت کے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تو باوجود اس کے کہ امریکہ کا دشمن سوویت یونین بھارت کی کھلم کھلا اور بھر پور مدد کررہا تھا اور امریکہ کا پاکستان کےساتھ دفاعی معاہدہ بھی تھا ، امریکہ پاکستان کی مدد کو نہیں آیا ۔ پاکستان آٹھویں امریکی بحری بیڑے کے آنے کا انتظار ہی کرتا رہ گیا اور مسلم تاریخ کی سب سے بڑی شکست کا سامنا کیا جس میں تقریباً ایک لاکھ مسلم فوج کو بھارت نے جنگی قیدی بنالیا اور اب پچھلے بارہ سالوں سے خطے میں امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے پاکستان اس کی فرنٹ لائن سٹیٹ اور نان نیٹو اتحادی بن کر پچاس ہزار سے زائد شہریوں اور فوجیوں کا خون اور معیشت کو ستر ارب ڈالر کا نقصان اس جنگ کی بھینٹ چڑھا چکا ہے۔
لہٰذا پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہمیں امریکہ اور کافر مغربی حربی ریاستوں سے تعلقات کو ختم کرنا ہو گا تب ہی ہم اس قابل ہوسکیں گے کہ اپنے معاملات میں آزادانہ فیصلے کرسکیں چاہے ان کا تعلق معیشت سے ہو یا خارجہ پالیسی سے ۔ لیکن ایسا صرف پاکستان میں خلافت کے قیام کے ذریعے ہی ممکن ہے کیونکہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار کبھی بھی ایسے جرات مندانہ اقدام اٹھانے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ یہ خلافت ہی ہو گی جو تمام امریکی فوجیوں، نجی سیکورٹی اہلکاروں اور سفارت کاروں کو ملک بدر کردے گی۔ خلافت تمام امریکی اڈے بنداور نیٹو سپلائی لائن کو کاٹ دے گی اور خلافت کے افواج مخلص مجاہدین کے ساتھ اس خطے سے امریکہ اور کافر مغربی حربی ریاستوں کو مار بھگائے گی اور ان کی نجاست سے اس سرزمین کو پاک کردے گی۔