Raheel-Nawaz regime’s narrow vision for the region
بسم الله الرحمن الرحيم
Views on News
Raheel-Nawaz regime’s narrow vision for the region
News:
On Thursday, 11th April, 2014 Prime Minister Nawaz Sharif, addressing the Boao Forum for Asia Annual Conference, called for a collective approach for addressing common challenges and laid stress on “enhanced connectivity for success”. He said Pakistan was on the confluence of China, the Eurasian land-bridge and the Middle East, placing the country near the three-pronged economic corridor between China, Central Asia and the Middle East. “This is the triangular dimension of our relevance to the Silk Road,” he added.
Comment:
Mr. Nawaz Sharif has been reaching all corners of the world showing his nation that he is passionately working to present Pakistan as a business friendly country abroad and to bring foreign investors, so that the economy of Pakistan will once start moving in an upwards direction. Attending and addressing Boao Forum for Asia Annual Conference was part of that struggle. The Raheel- Nawaz regime is claiming to make Pakistan a regional hub for regional and international trade, as part of the phenomenon of globalization. That is the justification that the regime is using to declare India as a Most Favored Nation (MFN) and support Afghanistan peace process, under the guise of a limited US withdrawal from Afghanistan. The regime claims that these two initiatives will bring the whole region, from Central Asia to India, closer and will boost economic activity. It claims that not only the people of Pakistan, but the people of the whole region will benefit immensely.
However, this limited vision for the region, where only economic objectives determine the course of foreign relations, is erroneous and dangerous. In most of these regional economic cooperations, only one or two of the larger countries snatch most of the benefits. They use the markets of neighboring less developed countries to boost their own economies, flooding them with their goods and demolishing local industry. The under-developed countries get a share like a peanut in a camel’s mouth, if that. Whether it is the European Union or NAFTA or any other economic treaties, big players always have the big share at the expense of other countries. Mexico has provided a growing market for meat for the US, leading to a surge in sales and profits for the US meat industry. The US Chamber of Commerce credits NAFTA with increasing US trade in goods and services with Canada and Mexico, from $337 billion in 1993 to $1.2 trillion in 2011. Developed countries produce large amounts and varied types of goods because of their industrial superiority, whilst under-developed countries do not have developed industry, so they only produce limited goods. Therefore, under-developed countries are never able to get the most out of this so called economic cooperation.
Denied proper industrial development for well over six decades, Pakistan is already seeing the negative effects of this so-called regional economic cooperation. Our markets have been converted to a dumping ground for low priced Chinese goods, to an extent that local manufacturing units cannot compete with them. And the large Indian manufacturers are salivating at the chance of doing the same as the Chinese. Our local manufacturers eventually close down their business and start importing, which results in local job losses and economic dependency on foreign countries. Moreover, such economic dependency opens the doors for foreign pressure on other national issues.
The Raheel-Nawaz regime does not see except what their masters sitting in Western capitals and international financial institutions headquarters say they should see. They are blind to the true potential of Pakistan, if it becomes the seat of the second Khilafah Rashida. If Pakistan becomes a Khilafah state, the implementation of the Islamic economic system will lead to massive economic prosperity, as it focuses on distribution of wealth, rather than the accumulation of wealth in a few hands, as the capitalist system does. Moreover, when the Muslims lands from Central Asia to India, East Africa to the Arabian Peninsula and Indonesia to Malaysia become part of the Khilafah state, Muslims will not need the markets of other nations. Their own market will be so immense that their goods will be consumed domestically quite easily. On the other hand, every nation on the earth will seek us out, so as to allow them to sell their goods in our huge market, eager to make their own fortune as well. So instead of confining ourselves to artificial borders created by colonialists, we must eliminate them, turning ourselves into a single giant Ummah of 1.6 billion Muslims and the world’s leading nation.
Written for the Central Media Office of Hizb ut-Tahrir by
Shahzad Shaikh
Deputy to the Spokesman of Hizb ut-Tahrir in Wilayah Pakistan
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خبر اور تبصرہ
خطے سے متعلق راحیل-نواز حکومت کا نقطہ نظر بہت محدود ہے
خبر: بروز جمعرات، 11 اپریل 2014 کو وزیر اعظم نواز شریف نے باؤ فورم برائے ایشیاء کی سالانہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے مشترکہ طریقہ کار کی ضرورت ہے اور “کامیابی کے لئے اضافی ربط” کی ضرورت پر زور دیا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان، چین، یوریشیا اور مشرق وسطیٰ کے سنگم پر واقع ہے جس کی بنا پر پاکستان تین معاشی راہ داریوں چین، وسطی ایشیا اور مشرق وسطٰی کے پاس واقع ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “شاہراہ ریشم سے ہمارا تعلق ان تین حوالوں سے ہے”۔
تبصرہ: جناب نواز شریف اس وقت دنیا کے ہر کونے تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں اور اپنی قوم کو یہ باور کرارہے ہیں کہ وہ پاکستان کو دنیا کے سامنے کاروبار کے حوالے سے بہترین ملک کے طور پر متعارف کرانے اور بیرونی سرمایہ کار کو ملک میں لانے کی کوشش کررہے ہیں تا کہ ایک بار پھر پاکستان کی معیشت کو بلندی کی جانب گامزن کرسکیں۔ باؤ فورم برائے ایشیاء کی سالانہ کانفرنس میں شرکت اور خطاب بھی اسی سلسلے کی ہی ایک کڑی تھی۔ راحیل۔نواز حکومت اس بات کا دعویٰ کررہی ہے کہ وہ عالمگیریت کے تصور کے حوالے سے پاکستان کو ایک علاقائی اور بین الاقوامی تجارتی مرکز کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ یہی وہ جواز ہے جس کو حکومت ، بھارت کو “پسندیدہ ملک” کا درجہ دینے اور افغانستان سے محدود امریکی انخلاء کے پردے میں افغانستان میں امن مذاکرات کی حمائت کرنے کے لئے استعمال کررہی ہے۔ حکومت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ ان دو کاموں سے وسطی ایشیا سے لے کر بھارت تک کا خطہ ایک دوسرے کے قریب آجائے گا اور اس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں زبردست اضافہ ہوگا۔ وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ صرف پاکستان کے عوام ہی نہیں بلکہ اس پورے خطے کے عوام اس سے زبردست فائدہ اٹھائیں گے۔
خطے سے متعلق یہ محدود نقطہ نظر ، جہاں خارجہ تعلقات میں صرف معاشی فوائد کو سامنے رکھا جائے ، غلط اور خطرناک ہے۔ اکثر معاشی تعاون کی علاقائی تنظیموں میں ایک یا دو بڑے ممالک زیادہ فوائد سمیٹ لیتے ہیں۔ وہ اپنے معاشی فوائد میں اضافے کے لیے کم ترقی یافتہ ہمسایہ ممالک کی مارکیٹوں کو اپنے مال سے بھر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں مقامی صنعت تباہ ہوجاتی ہے۔ کم ترقی یافتہ ممالک کو ان معاشی تعاون کی علاقائی تنظیموں کا حصہ بننے کی صورت میں جو حصہ ملتا ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہوتا ہے۔ چاہے یورپی یونین ہو یا نیفٹا (NAFTA) یا کوئی بھی دوسری ایسی تنظیم ، ہمیشہ بڑے ممالک کو چھوٹے ممالک کی قیمت پر بڑا حصہ ہی ملتا ہے۔ نیفٹا کے تحت میکسیکو امریکی گوشت کے لیے ایک زبردست مارکیٹ ثابت ہوئی جس کے نتیجے میں امریکی گوشت کی صنعت کے منافع میں مسلسل اضافہ ہو ا۔ امریکی ایوان تجارت کے مطابق نیفٹا کے نتیجے میں کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ امریکی تجارت میں اضافہ ہوا۔ 1993 میں ان ممالک کے ساتھ امریکی تجارت 337بلین ڈالر تھی جو 2011 تک بڑھ کر 1200بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ اعلٰی صنعتی بنیاد کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک مختلف اقسام کی اشیاء کو بہت بڑی تعداد میں پیدا کرتے ہیں جبکہ ترقی پزیر ممالک کے پاس ایسی اعلیٰ صنعتیں نہیں ہوتیں ، لہٰذا وہ صرف چند ہی اشیاء پیدا کرپاتے ہیں۔ اس لیے ترقی پزیر ممالک ان نام نہاد معاشی تعاون کی علاقائی تنظیموں سے کچھ زیادہ فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔
پچھلے ساٹھ سالوں سے صنعتی ترقی کی منزل کو پانے سے پاکستان کو روکا گیا ہے اوراس نام نہاد علاقائی معاشی تعاون کے منفی نتائج کا ہم پہلے ہی سے سامنا کررہے ہیں۔ ہماری مارکیٹیں سستی چینی اشیاء سے بھری پڑی ہیں اور اس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ مقامی صنعتیں ان سے مقابلہ نہیں کرپاتیں۔ اور اب بڑے بڑے بھارتی پیداواری ادارے بھی چین کی طرح اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے منتظر ہیں۔ ہمارے مقامی پیداواری ادارے آخر کار اپنے کاروبار کو بند کر کے اشیاء کی درآمد شروع کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں مقامی سطح پر روزگار کے مواقع ختم ہوتے جارہے ہیں وہیں بیرونی ممالک پر ہمارا انحصار بھی بڑھتا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس قسم کی معاشی انحصاری بیرونی ممالک کو ہمارے قومی معاملات پر اثر انداز ہونے کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔
راحیل۔نواز حکومت صرف وہی کچھ دیکھنا چاہتی ہے جو مغربی دارلحکومتوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ہیڈکواٹروں میں بیٹھے ان کے آقا انہیں دِکھانا چاہتے ہیں۔ یہ پاکستان کی اصل صلاحیت کو دیکھنے سے قاصر ہیں اگر پاکستان دوسری خلافت راشدہ کے آغاز کی سرزمین بن جائے۔ اگر پاکستان ریاست خلافت بن جائے تو اسلام کے معاشی نظام کا نفاذ زبردست معاشی خوشحالی کا باعث بنے گا کیونکہ اس نظام کی توجہ دولت کی تقسیم پر ہوتی ہے جبکہ سرمایہ دارانہ نظام میں دولت چند ہاتھوں میں مقید ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ جب وسطی ایشیا سے بھارت، مشرقی افریقہ سے جزیرۃ العرب اور انڈونیشیا سے ملیشیا تک کے مسلم علاقے ایک ریاست خلافت کا حصہ بن جائیں گے تو مسلمانوں کو دوسری اقوام کی مارکیٹوں کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔ ان کی اپنی مارکیٹ ہی اتنی وسیع ہو گی کہ ان کی اشیاء بڑی آسانی سے مقامی مارکیٹوں میں استعمال ہوجائیں گی۔ جبکہ دوسری جانب کرہِ ارض پر موجود ہر قوم ہم سے رجوع کرنے پر مجبور ہو گی تا کہ ہم انہیں اپنی مارکیٹوں تک رسائی دیں اور وہ اپنا مال بیچ کر اپنی قسمت بنا سکیں۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ ہم خود کو استعماری کفار کے ہاتھوں بنائی گئی سرحدوں میں قید رکھیں، ہمیں ان مصنوعی سرحدوں کو ختم کردینا چاہیے اور 1.6 ارب مسلمانوں کو ایک واحد زبردست امت میں بدل دینا چاہیے جو دنیا کی صفِ اول کی امت اور ان کی ریاست صفِ اول کی ریاست ہوگی۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان