An appeal for help in response to the calamity
Date:17th Jamad-es-Sani 1431 AH No: S/BN/51/010 31st May. 2010 CE
PRESS NOTE
An appeal for help in response to the calamity: Now … Now … O descendants of Sultan Muhmammad al-Faateh!
With brutal and open hostility, the hateful Jewish forces carried out a bloody attack on relief ships bound for Gaza. They killed and wounded dozens of those who stood defiantly in the face of the Jewish soldiers, Jewish soldiers that stormed ships bound for Gaza, carrying civilians and pursuing humanitarian and media work, as if they were ships of a war fleet, carrying troops to tear down the fortifications of the Jews.
Even though these ships are far less than what is obliged upon the Ummah by the people of Gaza, a people who have persevered, endured and cried for help, with not one of the Muslims’ rulers responding, and even though these ships can neither lift the blockade nor repulse the enemy, the hated Jewish entity’s leadership felt safe in their customary aggression and brutality, committing crimes in utter disregard of the state that considers itself the heir to the great Uthmani Khulafa’a, in utter disregard of the friendly relations which it itself insisted on establishing with the Turkish rulers and in total disregard of all the Muslims’ rulers.
Such a heinous crime rests upon the international community, the stance of the European states, the Security Council, Arab League and upon the diplomatic initiatives and legal statutes concerning regional and international waters. All of these amount to political absurdity and shirking of responsibility. The invalid Jewish entity is a rogue state, undertaking illegal operations, despicable acts trampling over international laws and norms with the complicity of the West, who instead of holding it to account for each violation, make feeble responses.
The Ummah today lacks the Uthmani Sultan Abdul Hamid, who, as recorded in history in letters of light, slapped the Jewish delegation that came to bargain for the lands of Palestine in the face. And the Ummah lacks the brave, pious man such as the ruler Muhammad al-Faateh who led armies and destroyed the Roman Empire.
So, will Turkey’s rulers be angry as Sultan Abdul Hamid was angry? Will they match the valor and bravery of Sultan Muhammad al-Faatih? Will they rush in response, as Al-Mua’tsaim rushed, to teach this hated entity a lesson that will change the course of history? Or will they be content with media outrage and superficial political actions, to mislead and extinguish the feelings of enraged Muslims?!
Indeed, the betrayal of the rulers and their abandoning of Palestine and its people has rendered any hope in them futile fantasy. Nor is there any good to be expected from the Turkish government which has neglected both its citizens and those with them. These rulers willingly meet an enemy with a blood-stained history and a track record of massacres, without warships and a huge army. We therefore call upon the sincere commanders in the Turkish armed forces, and in all Islamic armies, to put an end to this farce … now … now … an urgent action to install a sincere leader, who will take the armies out of their barracks and struggle with the heat of their blood, launching them to end the Jewish revelry and arrogance in the land. A sincere leader launching men who love martyrdom more than the Jewish soldiers love life, making the Jews forget the whispering of the Shaytaan and revealing their despised and cowardly nature, uprooting their entity from Palestine, uprooting a thorn from a blessed land.
وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ
“If they seek your help in Deen, it is upon you to help”
[Surah al-Anfaal 8:72]
——————————————————————————————-
پریس سٹیٹمنٹ
مصیبت کی گھڑی میں مدد کے لیے ایک اپیل: آج … ابھی… اے سلطان محمد الفاتح کے جانشینو!
اپنی سفاکانہ کھلی دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے نفرت انگیز یہودی افواج نے غزہ کے لیے امدادی سامان لے جانے والے بحری جہازوں پرشب خون مارا۔ وہ لوگ جنہوں نے ان فوجیوں کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت کی، یہودی فوجیوں نے اُن میں سے درجنوںافراد کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کر دیا۔ یہودی فوجیوں نے غزہ کے لیے جانے والے بحری جہازوں پر یوں دھاوا بولا گویا وہ فوجوں سے لدے جنگی بیڑے کے جہاز ہوں جو یہودیوں کے قلعوں کو گرانے جا رہے تھے، حالانکہ وہ بحری جہاز تو فقط عام لوگوں کو لے جا رہے تھے جن کا ہدف صرف انسانی امداد اور میڈیا کے حوالے سے کام تھا۔
اور اگرچہ یہ جہاز اُس سے کہیں کم ہیں جو اِس امت پر غزہ کے لوگوں کاحق ہے۔ غزہ کے لوگ کہ جنہوں نے صبر کیا، ثابت قدم رہے اور مدد کے لیے پکارا، لیکن مسلمانوں کے کسی ایک بھی حکمران نے اُن کی پکار کا جواب نہیں دیا۔ اگرچہ یہ امدادی جہاز نہ تو ناکہ بندی ہی ختم کر سکتے ہیں اور نہ ہی یہودی دشمن کو پیچھے دھکیل سکتے ہیں، مگر نفرت انگیز یہودی ریاست کی قیادت اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے ہوئے اپنی روائتی جارحیت اور سفاکی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور جرائم کا ارتکاب کرتی جارہی ہے اور انہیں اُس ترک ریاست کی کوئی پرواہ نہیں جو اپنے آپ کوعظیم عثمانی خلفاء کی وارث سمجھتی ہے اور اُن دوستانہ تعلقات کی بھی پرواہ نہیں جنہیں یہ یہودی خود ترک حکمرانوں سے قائم کرنے پر مضر تھے بلکہ اِس جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے انہوں نے تمام مسلم حکمرانوں کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی۔
بین الاقوامی برادری، یورپی ریاستوں، اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل اور عرب لیگ کے رویوں، علاقائی اور عالمی پانیوں سے متعلق اُن کے قانونی فیصلوں اور سفارتی سرگرمیوں کی شہہ پر یہودی ریاست کی طرف سے اِس گھنائونے جرم کا ارتکاب کیا گیا۔ یہ صورتِ حال اس بات کی عکاسی کرتی ہے یہ ادارے سیاسی لحاظ سے بے کار اور محض بے فائدہ ہیں اور یہ ہر ذمہ داری سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ ناجائز یہودی وجود ایک بدمعاش ریاست ہے جو مغرب کی مدد سے عالمی قوانین اور اقدار کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے غیر قانونی اور قابلِ نفرت اعمال سرانجام دے رہی ہے، وہ مغرب جو ایسی ہر جارحیت پر اُس کا احتساب کرنے کی بجائے فقط کمزور ردِ عمل پر اکتفا کرتا ہے۔
آج امت عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید جیسی قیادت سے محروم ہے، جس نے فلسطین کی ریاست پر سودے بازی کے لیے آنے والے یہودی وفد کو ایسا جواب دیا جو ان کے منہ پر تھپڑ تھا، سلطان کا یہ طرزِ عمل تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا گیا۔ اور آج امت محمد الفاتح جیسے جری اور متقی شخص کی قیادت سے محروم ہے، جس نے اسلامی فوج کی قیادت کی اور رومی سلطنت کو زمین بوس کیا۔
تو کیا آج ترکی کے حکمران اسی طرح غضب ناک ہو ں گے جس طرح سلطان عبد الحمید دوئم ہوئے تھے؟ کیا وہ سلطان محمد فاتح جیسی بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کریں گے؟ کیا وہ یہودی ریاست کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے اسی طرح لپکیں گے جیسا کہ معتصم نے کیا تھا، تاکہ اس حقیر اور نفرت آمیز ریاست کو ایسا سبق سکھایا جائے جو تاریخ کا رُخ تبدیل کر دے؟ یا وہ محض میڈیا پر غم و غصے کے اظہار اور سطحی سیاسی اقدامات پر ہی اکتفاء کریں گی جس کا مقصد غصے میں مبتلا مسلمانوں کے جذبات کو غلط رُخ دینا اور ٹھنڈ ا کرنا ہے۔
بے شک ان حکمرانوں کی غداری اور فلسطین اور اس کے لوگوں سے دستبرداری ان کے بے کار خوابوں سے متعلق کسی بھی امید کو ختم کر چکی ہے۔ نہ ہی ترک حکومت سے کوئی خیر متوقع ہے جس نے اپنے باشندوں اور ان کے ساتھ شریک لوگوں سے غفلت برتی ہے۔ یہ حکمران جنگی جہازوں اور کثیر افواج کے ساتھ اپنے دشمن کا سامنا کرنے کی بجائے ان سے ملاقاتیں کرتے ہیں، جبکہ وہ اِس دشمن کی خون آلود تاریخ اور قتلِ عام کے سلسلے سے آگاہ ہیں۔ پس ہم ترک افواج اور تمام اسلامی افواج میں موجود مخلص کمانڈروں کو پکارتے ہیں کہ وہ اس گھنائونے مذاق کے خاتمے کے لیے حرکت میں آئیں…ابھی…فوراً!۔ ایک مخلص لیڈر کے تقرر کے لیے فوری عمل، جو مسلم افواج کو بیرکوں سے باہر نکالے، ان کے خون کو گرمائے اور یہودیوں کی خرمستیوں اور تکبر کا خاتمہ کرے۔ وہ مخلص قیادت جو ایسے مرد میدانِ جنگ میں اتارے جو شہادت سے اس سے زیادہ محبت کرتے ہوں جتنا یہودی زندگی سے محبت کرتے ہیں، وہ یہودیوں کو شیطان کی سرگوشیاں بھلا دیں اور ان کی نفرت آمیز حقیقت اور بزدل فطرت کو بے نقاب کردیں، اور فلسطین سے یہودی ریاست کا خاتمہ کر دیں، اور بابرکت سرزمین سے اس کانٹے کو نکال دیں۔
(وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ)
“اگر یہ دین کے بارے میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر ان کی مدد لازم ہے۔”
(الانفال:72)
———————————————————————————————
التاريخ: 17 من جمادي الثاني 1431 الرقم:ص/ب ن51/010
الموافق: 31/5/2010 م
بيان صحفي
صرخة استغاثة لردٍّ مزلزل: الآن… الآن… يا أحفاد السلطان محمد الفاتح !
بكل وحشية وعداء صارخ نفّذت قوات يهودية حاقدة هجوما دمويا على سفن الإغاثة المتجهة لغزة، وقتلت وجرحت العشرات من الذين وقفوا بعنفوان أمام اقتحام جنود يهود لتلك السفن، التي تحركت نحو غزة في عمل ذي طابع إنساني إعلامي، تحمل مدنيين، ولم تكن أسطولا حربيا يحمل قوات بحرية خاصة لدك حصون يهود.
وتلك السفن، وإن كانت أقل ما يتوجب على الأمة تجاه أهل غزة الذين صبروا وصابروا واستغاثوا ولا مجيب من حكام المسلمين، وإن كان لا يمكن لها أن ترفع حصارًا ولا أن تنكأ عدوًا، إلا أن قادة الكيان البغيض، كعادتهم في كل عدوان وحشي يأمنون فيه جانب الحكام ارتكبوا جرائمهم مستخفّين بدولة تعتبر نفسها وريثة الخلفاء العثمانيين العظماء، ودون أي اعتبار للعلاقات الودية التي يصر حكام تركيا على نسجها معهم، وغير آبهين بكل حكام المسلمين.
وأمام هذه الجريمة البشعة، فإن التعويل على المجتمع الدولي وعلى مواقف الدول الأوروبية، وعلى مجلس الأمن، وعلى الاجتماعات العربية، وعلى الأعمال الدبلوماسية والمحاججة القانونية بالحديث عن مياه إقليمية وغير إقليمية، إنما هي كلها من العبث السياسي وهي تهرب من المسؤولية، فهذا كيان باطل لدولة مارقة، تمخّض عن عملية غير شرعية، وهؤلاء علوجه قد داسوا القوانين والأعراف الدولية بتواطؤ غربي، دون أن يحسبوا حسابًا لكل ردات الفعل الهزيلة تلك.
إن الأمة اليوم تفتقد السلطان العثماني عبد الحميد الذي صفع سماسرة يهود بردٍّ سجّله التاريخ بحروف من نور، يوم جاءوا يساومونه على أرض فلسطين. والأمة تفتقد رجلاً تقياً شجاعاً كالسلطان محمد الفاتح الذي جيّش الجيوش وقضى على إمبراطورية الروم.
فهل سيغضب حكام تركيا كما غضب السلطان عبد الحميد، وهل سيتصفون بشيء من نخوة السلطان محمد الفاتح وشجاعته؟ وهل يهبّون كما هب المعتصم ليلقنوا هذا الكيان الغاصب درسًا يغيّر مجرى التاريخ؟ أم أنهم سيكتفون بالصراخ الإعلامي والأعمال السياسية السطحية تضليلا وتنفيسا لمشاعر المسلمين الغاضبين؟!
إن خيانة الحكام وخذلانهم لفلسطين وأهلها قد جعل الرجاء فيهم خيالا عبثيا، ولا خير يرجى من حكومة تركية تركت رعاياها ومن معهم، يذهبون لملاقاة عدو غادر ذي تاريخ ملطخ بالدماء وسجل حافل بالمذابح، دون مرافقتهم بسفن حربية وجيش جرار. ولذلك فإننا ندعو القيادات المخلصة في القوات المسلحة التركية، وفي الجيوش الإسلامية كافة، إلى وضع حد لهذه المهازل… الآن… الآن… والتحرك العاجل لتنصيب قائد مخلص يخرج الجيوش من ثكناتها ويتفاعل مع حرارة دمائها، ويطلقها لإنهاء عربدة اليهود واستكبارهم في الأرض، وينطلق برجال يحبون الشهادة أكثر مما يحب جنود يهود الحياة، لينسيهم وساوس الشيطان، وليكشف طينتهم المهترئة وجبنهم، فيخلع كيانهم من فلسطين خلع الشوك من الأرض الطاهرة.
“وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ”