In Democracy, True Representation of The People is Not Possible
Saturday, 22th Safar 1439 AH | 11/11/2017 CE | No: PR17076 |
Press Release
In Democracy, True Representation of The People is Not Possible
Turmoil in Karachi politics proves that in Democracy
only the ruling elite determines the future of The People
This reality is becoming clearer all over the world that elections under democracy do not provide people the opportunity to elect their representatives according to their wishes rather the ruling elite before the elections limit the choice of the people through manipulation. And the turmoil being witnessed in the politics of Karachi for the last few days has exposed this reality in Pakistan as well. Suddenly the alliance of the two factions of MQM was announced, which was impossible to imagine even 24 hours before the announcement as leaders of both of them had declared to destroy the other faction politically. The hand of the ruling elite behind this alliance is thus very visible. Dawn newspaper stated: “the central leadership of the two parties had been summoned by the powers that be for a late night meeting at a Defence safe house,….were communicated that their infighting would not be tolerated…”.
Infact this manipulation is not happening for the first time in Pakistan. In 2007 former Prime Minister Benazir Bhutto made a deal with the military dictator General Musharaf so that she could return to power once again. The details of the deal were later revealed by former US Foreign Secretary Condoleezza Rice in her book “No Higher Honor”. And even before that, elections in the era of 1990s are proof that ruling elite ensures before elections that whatever choices people have must be with their consent.
In democracy ruling elite aims to limit the choice of the people because those who become members of the assemblies have legal right to make laws and policies of the country. Therefore before every election a competition starts between political parties to assure the ruling elite that they will make laws and policies according to their whims and desires. Quite opposite to this in Islam’s political system, the Khilafah, people elect their Khaleefah and representatives for the Majlis-i-Ummah with their choice as both of them have no power to make laws rather the Khaleefah is bound to implement laws and policies derived from the Quran and Sunnah and Majlis-i-Ummah ensures that such an implementation is according to Islam. Therefore even if the Khaleefah and the Majlis-i-Ummah are elected with the blessings of the ruling elite they don’t have the right to make laws and the ruling elite can’t pressurize them to make laws and policies according to their demands. Therefore the ruling elite as it exists in democracy does not exist in the Khilafah. Historically even when the post of Khaleefah remained within a few families because of weak understanding of Islam, even in those times power and ruling was in the hands of Khaleefah and not in the hands of the family to which he belonged or to some ruling elite. And so the Khaleefah was completely free to implement Islam and take care of the interests of the people. Therefore we see in the Muslim history renowned Khulfah like Umer Bin Abdul Aziz in the Umayyad era, Haroon ur Rasheed in the Abbasi era and Sulaiman Al-Qanuni in the Uthmani era who used their power and authority to strengthen Islam and Muslims. In fact Khilafah is the only system which guarantees the rights of the people because in this system people are not dependent on any political party and its success in election to ensure that they will get their rights. Rather rights of the people have been decided by the Sharia of Allah (swt) and the Khaleefah is bound to observe them.
Democracy is the system of capitalist and powerful ruling elite, and even its best form only spends a small percentage of state resources on the people so that they don’t rebel against this corrupt elite. Now is the time to come out of the deceit and illusion of democracy that it allows us to decide our future. In democracy the ruling elite decides our future. Because of this fact people of Pakistan still dream of the implementation of Islam in Pakistan although they had committed their future to Islam seventy years ago when during the independence movement they raised the slogan of “What is the meaning of Pakistan: No Rab except Allah”(Pakistan ka matlab kya: la ilaha ilallah). Only in the Khilafah system will we be free to choose our future because our Khaleefah and Majlis-i-Ummah will be bound to Islam only.
اَلَا يَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَؕ وَهُوَ اللَّطِيۡفُ الۡخَبِيۡرُ
“Should not He Who has created know? And He is the Most Kind and Courteous (to His slaves) All-Aware (of everything)” (AlMulk: 14)
Media Office of Hizb ut-Tahrir in the Wilayah of Pakistan
بسم الله الرحمن الرحيم
عوام کی حقیقی نمائندگی جمہوریت میں ممکن ہی نہیں
کراچی کی سیاست میں جاری ہلچل اس بات کا ثبوت ہے کہ جمہوریت میں حکمران اشرافیہ عوام کے مستقبل کا تعین کرتی ہے
یہ حقیقت دنیا بھر میں واضح ہوتی جارہی ہے کہ جمہوریت میں ہونے والے انتخابات عوام کو ان کی مرضی کے نمائندے چننے کا موقع فراہم نہیں کرتے بلکہ حکمران اشرافیہ انتخابات سے قبل ہی عوام کی چوائس کو اپنی مرضی کے مطابق محدود کردیتی ہے۔ پچھلےچار دنوں سے کراچی کی سیاست میں ہونے والی ہلچل نے پاکستان میں بھی اس حقیقت کو بے نقاب کردیا ہے۔ راتوں رات متحدہ قومی موومنٹ کے دو دھڑوں کے انضمام کا اعلان ہوا، جس کا امکان ایک دن پہلے تک ناممکن نظر آرہا تھا کیونکہ دونوں دھڑے ایک دوسرے کو سیاسی طور پر ختم کرنے کے دعوے کررہے تھے۔ اس انضمام کے پیچھے حکمران اشرافیہ کا ہاتھ واضح ہے- ڈان اخبار نے لکھا کہ:” منگل کی رات ڈیفنس کراچی کے ایک سیف ہاوس میں دونوں جماعتوں کی مرکزی قیادت کو ” متعلقہ طاقتوں” نے طلب کیا اور ان پر واضح کیا کہ ان کے درمیان مزید لڑائی اور اختلافات اب ناقابل برداشت ہیں”۔ اور پھر بدھ کی رات دونوں دھڑوں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اپنی جماعتوں کے انضمام کا اعلان کردیا۔
درحقیقت پاکستان میں یہ عمل کوئی پہلے بار نہیں ہورہا بلکہ بار بار ہوچکا ہے۔ اس سے پہلے 2007 میں سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹونے اقتدار میں آنے کے لیے اس وقت کے آمر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کی تفصیلات اس وقت کی امریکی سیکریٹری خارجہ کونڈالیزا رائس نے اپنی کتاب” No Higher Honor” میں درج کی ہیں۔ اور اس سے بھی پہلے 1990 کی دہائی میں ہونے والے ہونے والے تینوں انتخابات بھی اس بات کا ثبوت ہیں کہ حکمران اشرافیہ انتخابات سے پہلے ہی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ عوام کے سامنے تمام چوائسس ان ہی کی مرضی کے مطابق ہوں۔
جمہوریت میں حکمران اشرافیہ عوام کی چوائس کو محدود کرنے کا کام اس لیے کرتی ہے کیونکہ اسمبلیوں میں آنے والے اور پھر سیاسی حکومت بنانے والے قانونی طور پر قوانین اور ملک کی پالیسیاں بنانے کا اختیار رکھتے ہیں۔ لہٰذا انتخابات سے قبل ہی سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک مقابلہ شروع ہوجاتا ہےاور وہ ایک دوسرے سے بڑھ کر حکمران اشرافیہ کو اس بات کی یقین دہانی کرا رہی ہوتی ہیں کہ وہ ان کی مرضی کے مطابق قوانین اور پالیسیاں بنائیں گی۔ اس کے برخلاف اسلام کے سیاسی نظام خلافت میں عوام اپنی رائے سے خلیفہ اور مجلس امت کا انتخاب کرتے ہیں لیکن ان دونوں کے پاس قوانین بنانے کا حق اور اختیار نہیں ہوتا بلکہ خلیفہ قرآن و سنت سے قوانین اور پالیسیاں اخذ کر کے نافذکرنے اور مجلس امت اسلام کی بنیاد پر ان قوانین اور پالیسیوں کے نفاذ کی نگرانیاور جانچ پڑتال کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ لہٰذا نظام خلافت میں چاہے حکمران اشرافیہ کی مرضی کا خلیفہ یامجلس امت ہی کیوں نہ منتخب ہو کر آجائیں لیکن قانون سازی کا اختیار نہ ہونے کی وجہ سے حکمران اشرافیہ ان سے اپنی مرضی کے قوانین اور پالیسیاں نہیں بنواسکتی کیونکہ خلیفہ صرف اور صرف قرآن و سنت سے قوانین اور پالیسیاں بنانے اور نافذ کرنے کاپابند ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت میں حکمران اشرافیہ، کہ جس طرح سے آج کے جمہوری نظام میں موجود ہے، کا وجود نہیں ہوتا۔ تاریخی طور پر جب مسلمانوں کی اسلام کی فہم میں کمزوری کے باعث خلافت کا منصب چند خاندانوں تک محدود ہو گیا تو اس وقت بھی طاقت اور اقتدار خلیفہ ہی کے ہاتھ میں تھا نہ کہ اس کے خاندان یا کسی حکمران اشرافیہ کے ہاتھ میں۔یوں خلیفہ اسلام کے نفاذ اور اس کے ذریعے لوگوں کے امور کی دیکھ بھال میں مکمل طور پر آزاد تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اموی دور میں عمر بن عبدالعزیز، عباسی دور میں ہارون الرشید اور عثمانی دور میں سلیمان القانونی مسلم تاریخ کے عظیم خلفاء کے طور پر مشہور ہیں جنہوں نے اپنی قوت او ر اقتدار کو اسلام اور مسلمانوں کی مضبوطی کے لیے استعمال کیا۔ درحقیقت خلافت ہی ایک ایسا نظام ہے جو عوام کے حقوق کا ضامن ہے کیونکہ ا س نظا م میں عوام اپنے حقوق کی وصولی کے لیے کسی سیاسی پارٹی اور انتخابات میں اس کی کامیابی کے محتاج نہیں ہوتے۔ بلکہ عوام کے حقوق شریعتِ الہی نے متعین کر دیے ہیں اور خلیفہ پر شریعت کی پابندی اور اس کا نفاذ لازم ہے۔
جمہوریت سرمایہ داروں اور طاقتور اشرافیہ کا نظام ہے جس کی بہترین صورت میں حکمران اشرافیہ ریاست کے وسائل میں سے کچھ عوام پر صرف اس لیے خرچ کرنے کے لیے تیار ہوتی ہے کہ عوام اس کرپٹ اشرافیہ کے خلاف علم بغاوت نہ بلند کرے۔ اب وقت آچکا ہے کہ ہم خود کو اس دھوکے سے نکالیں کہ جمہوریت میں ہم اپنے مستقبل کا تعین خود کرتے ہیں۔ جمہوریت میں ہمارے مستقبل کا تعین حکمران اشرافیہ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عوام آج تک پاکستان میں اسلام کے نفاذ کا خواب ہی دیکھ رہے ہیں جبکہ اسلام سے وہ اپنا مستقبل 70 سال قبل ہی وابستہ کرچکے تھےجب قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران انہوں نے “پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاللہ” کے نعرے بلند کیے تھے۔ صرف نظام خلافت میں ہی ہم اپنے مستقبل کا تعین کرنے میں حقیقت میں آزاد ہوں گے کیونکہ ہمارا منتخب خلیفہ اور مجلس امت ہم پر صرف اور صرف اسلام کو نفاذ کرنے کے پابند ہوں گے۔
اَلَا يَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَؕ وَهُوَ اللَّطِيۡفُ الۡخَبِيۡرُ
“کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا؟ پھر وہ باریک بین اور باخبر بھی ہو “(سورة المُلک:14)
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس