Whether Civilian or Military, Courts in Democracy are Unjust
Thursday, 14th Rabi` ath-Thaanee 1438 AH 12/01/2017 CE No: PR17003
Press Release
Whether Civilian or Military, Courts in Democracy are Unjust
For Justice, Abolish the Man-Made System and Establish the Khilafah (Caliphate) on the Method of Prophethood
On 9th January 2017, a high level meeting regarding military courts took place, chaired by Prime Minister of Pakistan, in which the civilian and military leadership participated. It was decided in this meeting that the federal government will start a consultative process leading to a constitutional amendment for the continuation of military courts in the country. Military courts were established in January 2015 as part of the National Action Plan, after the horrific attack on Peshawar Army Public School. Their original tenure was set for two years only and at the time of their establishment, the government subdued all critics by saying that civilian courts have not been able to conduct the trial of “terrorists” and convict them effectively. The rulers argued that within two years the civilian courts would be brought up to standard. However, seeking the restoration of military courts after their expiry proves that government is unable to fix the unfixable!
The current civilian judiciary is unfixable because it does not judge by the Quran and Sunnah. The current judiciary is no more than the continuation of the system left by the British Raj occupation. It was designed by colonialists to suppress the Muslims and their Deen which compels them to reject the domination of kufr and its people. Justice is not to be found for Muslims in this man-made law and therefore any attempt to fix it, is bound to fail. The establishment of military courts does not fix the problem because they as do not judge by Islam either. Whether civilian or military, courts under Democracy are devoid of the essential component for justice, Islam. If Muslims face oppression because of the un-Islamic civilian judiciary, then how will military courts provide justice for Muslims when they judge by the same man-made laws? Indeed, it is well-known that since the National Action Plan began two years ago, hundreds of Ulema and Islamic activists, including the advocates of Khilafah, have been locked up just because they demand that Islam should prevail over all other ways of life. The only real difference between civilian and military courts, is that in military courts, the flagrant suppression of Islam can be hidden from the public, due to the secret nature of their hearings. That is what the regime is seeking, because the National Action Plan is a US plan to suppress the strong Islamic sentiments that resist the US occupation of Afghanistan and Indian occupation of Kashmir.
Allah (swt) not only forbade Muslims from referring in their judgments to the non-Islamic authority (Taghut), He (swt) ordered the Muslims to disbelieve in it. Allah (swt) said,
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُواْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلاَلاً بَعِيدًا
“Have you seen those who pretend to believe in what has been revealed to you and what has been revealed before you, how they go in their judgment to the Taghut, though they have been ordered to disbelieve in it. But Shaytan’s wish is to lead them astray.” [Surah An-Nisa’a 4: 60]
To secure justice, it is upon the Muslims to embrace fully the Khilafah project and work shoulder to shoulder with the brave shebaab of Hizb ut-Tahrir. The only permanent fix for the current courts, whether civilian or military, is to abolish them along with Democracy and establish the Khilafah (Caliphate) on the Method of Prophethood and the Islamic judiciary.
Media Office of Hizb ut-Tahrir in the Wilayah of Pakistan
بسم الله الرحمن الرحيم
جمہوریت میں عدالتیں فوجی ہوں یا سول، انصاف فراہم نہیں کرسکتیں
انصاف کے لیے انسانوں کے بنائے نظام کو ختم اور نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام ضروری ہے
9 جنوری 2017 کو وزیر اعظم پاکستان کی صدارت میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں سیاسی و فوجی قیادت نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں یہ اعلان کیا گیا کہ حکومت فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے درکار آئینی ترمیم کے حوالے سے مشاورت کا سلسلہ شروع کررہی ہے۔
پشاور آرمی پبلک اسکول پر خوفناک حملے کے بعد فوجی عدالتیں نیشنل ایکشن پلان کے تحت جنوری 2015 میں قائم کی گئیں تھیں اور ان کی میعاد دو سال مقرر ہوئی تھی۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے وقت حکومت نے ان کے قیام پر ہونے والی تنقید کو یہ کہہ کر خاموش کرادیا تھا کہ عام عدالتیں “دہشت گردوں” کے مقدمے چلانے اور انہیں سزائیں دینے سے قاصر ہیں ۔ حکمرانوں نے وعدہ کیا تھا کہ دو سال کے اس عرصے میں عام عدالتی نظام میں پائی جانی والی خامیوں کو دور کردیا جائے گا۔ لیکن اب دوسال گزرنے کے بعد فوجی عدالتوں کو ایک بار پھر قائم کرنے کی کوشش اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت ایک ایسی چیز کو ٹھیک کرنا چاہتی تھی جو ٹھیک ہو ہی نہیں ہوسکتی۔
موجودہ عدالتی نظام ٹھیک نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتا۔ موجودہ عدالتی نظام استعماری برطانوی راج کا چھوڑا ہو اہے۔ اس عدالتی نظام کا مقصد مسلمانوں اور ان کے دین کو کچلنا تھا جو اُن میں یہ جذبہ پیدا کرتا ہے کہ وہ کفر اور اس کے ماننے والوں کے غلبے کا انکار کریں ۔انسانوں کے بنا ئے اس نظام میں مسلمانوں کو انصاف مل ہی نہیں سکتا لہٰذا اسے درست کرنے کی کوئی بھی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ لیکن اس کا علاج فوجی عدالتوں کا قیام بھی نہیں ہے کیونکہ فوجی عدالتیں بھی اسلام کی بنیاد پر فیصلے نہیں دیتی ۔ لہٰذا عام عدالتیں ہوں یا فوجی عدالتیں دونوں ہی انصاف کی فراہمی کے لیے درکار بنیادی عنصر اسلام سے خالی ہیں۔ اگر عام عدالتی نظام کےغیر اسلامی ہونے کی وجہ مسلمان انتہائی تکالیف اور مظالم کا شکار ہیں تو یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ فوجی عدالتیں مسلمانوں کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں گی جبکہ وہ بھی انسانوں کے بنائے غیر اسلامی قوانین کی بنیاد پر چلتیں اور فیصلے کرتیں ہیں؟ یہ بات ہر خاص و عام جانتا ہے کہ جب سے نیشنل ایکشن پلان شروع ہوا ہے، سیکڑوں علماء اور اسلامی سیاسی کارکنان، جن میں خلافت کے داعی بھی شامل ہیں، کو صرف اس وجہ سے جیلوں میں ڈال دیا گیا کیونکہ وہ دیگر تمام نظریہ حیات کو مسترد کر کے صرف اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی حقیقی فرق سول اور فوجی عدالتوں میں ہے تو وہ یہ کہ فوجی عدالتوں میں اسلام کو کچلنے کے کاروائی کو خفیہ رکھا جاسکتا ہے کیونکہ ان کی سماعت خفیہ ہوتی ہے۔ اور یہی حکومت کا مقصد ہے جس کے حصول کے لیے وہ کوشش کررہی ہے کیونکہ نیشنل ایکشن پلان امریکی ایکشن پلان ہے جس کا مقصد مضبوط اسلامی احساسات و افکار کو کچلنا ہے جو افغانستان میں امریکہ اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قبضے کے خلاف بھر پور مزاحمت کرتے ہیں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے فیصلے غیر اسلامی اتھارٹی (طاغوت)سے کروانے سے نہ صرف منع فرمایا ہے بلکہ اس کا انکار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ،
أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُواْ بِمَآ أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَآ أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوۤاْ إِلَى ٱلطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوۤاْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِ وَيُرِيدُ ٱلشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلاَلاً بَعِيداً
“کیا آپ ﷺ نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جو دعوی کرتے ہیں کہ ایمان لائے ہیں، اس پر جو آپ ﷺ کی طرف اور آپ ﷺ سے پہلے نازل ہوا، چاہتے ہیں کہ اپنے فیصلے طاغوت(غیر اللہ) کے پاس لے جائیں حالانکہ ان کو حکم ہوچکا ہے کہ طاغوت کا انکار کردیں۔ شیطان چاہتا ہے کہ وہ ان کو بہکا کر دور جا ڈالے”(النساء:60)۔
انصاف کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ مکمل طور پر خلافت کے منصوبے کو قبول کرلیں اور حزب التحریرکے بہادر شباب کے کندھے سے کندھا ملا کر چلیں۔ موجودہ عدالتوں کا ایک ہی علاج ہے، چاہے وہ فوجی ہوں یا سول، کہ جمہوریت کے ساتھ انہیں بھی ختم کیا جائے اور نبوت کے طریقے پر خلافت اور اسلامی عدالتی نظام قائم کیا جائے۔